حوزہ نیوز ایجنسی| تاریخ اسلام کی ابتدائی صدیوں سے مولائے کائنات کے کلمات خصوصاً آپ کے خطبات لوگوں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں جیسا کہ مسعودی
(م ۳۴۶ھ)کا بیان ہے :
والذی حفظ الناس عنہ من خطبہ في سائر مقاماتہ،اربعمأۃ خطبۃ ونیف وثمانون خطبۃ، یوردھا علی البدیھۃ وتداول الناس عنہ قولاً وعملاً (1)
حضرت علی ؑکے جو خطبات لوگوں نے محفوظ کئے ہیں ان کی تعداد چارسو اسی خطبات سے زیادہ ہے۔یہ خطبات لوگوں کو اس طرح یاد تھے کہ برجستہ انہیں پیش کر دیا کرتے تھے اور ان کے قول و عمل میں برجستہ ان خطبات کو پیش کرنے کارواج تھا۔
فہرست کی کتابوں میں یہاں پر ان بعض افراد کا ذکر کیا جا رہا ہے جنہیں مولائے کائنات کے خطبات کو جمع کرنے والا بتایا گیا ہے۔
۱۔ زید ابن وہب جہنی:شیخ طوسیؒ نے اپنی فہرست میں لکھا ہے :
زید ابن وہب،لہ کتاب خطب امیر المومنین ؑعلی المنابر فی الجمع والاعیاد وغیرہا (2)
زید ابن وہب کی ایک کتاب ہے جس میں امیر المومنین ؑکے منبر سے دئے گئے خطبات ہیں جو عید یا دیگر مناسبتوں پر دئے گئے ۔
۲۔ اصبغ ابن نباتہ کے بارے میں شیخ طوسیؒ کی فہرست میں آیا ہے کہ :
الاصبغ بن نباتۃ کان من خاصۃ امیر المؤمنین وعمر بعدہ وروی عھد مالک الاشتر الذی عھد الیہ امیر المؤمنین لما ولاہ مصر وروی وصیۃ امیر المؤمنین الی ابنہ محمد بن الحنفیۃ (3)
اصبغ ابن نباتہ امیر المومنین حضرت علی ؑکے خاص اصحاب میں سے تھے جو آپ کے بعد تک زندہ رہے۔اصبغ نے عہد نامہ مالک اشتر کی روایت کی ہے جوامیر المومنین ؑ نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر بناتے وقت لکھا تھا اسی طرح امیر المومنین ؑکی اپنے ایک بیٹے محمد حنفیہ سے کی گئی وصیت بھی اصبغ ہی سے مروی ہے۔
۳۔ اسماعیل ابن مہران
ان کے بارے میں شیخ طوسیؒ کا بیان ہے:
لقی الرضا وروی عنہ وصنف مصنفات کثیرۃ منھا خطب امیر المؤمنین (4)
کہ انہوں نے امام علی رضا ؑسے ملاقات کی اور آپ سے روایات نقل کی ہیں اور ان کی بہت سی تصنیفیں ہیں جن میں امیر المومنین حضرت علی ؑکے خطبات ہیں۔
۴۔ صالح ابن ابی حماد رازی
ان کے بارے میں نجاشی نے بیان کیا ہے :
لقی ابا الحسن العسکری لہ کتب منھا کتاب خطب امیرمومنان (5)
انہوں نے امام حسن عسکری ؑسے ملاقات کی ان کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں امیر المومنین ؑکے خطبات کے سلسلے میں لکھی جانے والی کتاب بھی ہے۔
۵۔ ہشام کلبی(م۲۰۶ھ)
نجاشی کا بیان ہے :
کان یختص بمذہبناو لہ کتب کثیرہ منہا کتاب الخطب(6)
ان کا تعلق خاص ہمارے مذہب سے تھا ان کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں خطبات کی کتاب بھی ہے۔ ابن ندیم نے اپنی کتاب الفہرست میں صراحت کی ہے کہ ہشام کلبی نے امیر المومنین ؑکے خطبات کو جمع کیا تھا(7)
۶۔ابراہیم ابن نہمی
شیخ طوسی اور نجاشی دونوں نے ان کے بارے میں کہا ہے:
لہ کتب منہا کتاب الخطب۔(8)
ان کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں خطبات کی کتابیں بھی ہیں۔
۷۔ابوالحسن علی ابن محمد مدائنی(م۲۲۵ھ)
صاحب روضات نے ان کے بارے میں بیان کیا ہے :
ابوالحسن المدائنی الاخباری صاحب کتاب الاخبار والتواریخ الکثیرۃ التی تزید علی ماتی کتاب منھا کتاب خطب امیر المومنین (9)
ابوالحسن مدائنی اخباری تھے، روایات اور تاریخ کے سلسلے میں ان کی بہت سی کتابیں ہیں جن کی تعداد دو سو سے زیادہ ہے۔ان کتابوں میں امیر المومنین ؑکے خطبات کی کتاب بھی ہے۔
۸۔عبد العزیز جلودی
ان کے بارے میں کتاب رجال میں نجاشی کا کہنا ہے:
لہ کتب قد ذکرھا الناس منھا کتاب مسند امیر المؤمنین … کتاب خطبہ کتاب شعرہ کتاب قضاء علی کتاب رسائل علی کتاب مواعظہ کتاب الدعاء عنہ۔(10)
لوگوں نے ان کی بہت سی کتابوں کا تذکرہ کیا ہے جس میں کتاب مسند امیر المومنین ؑبھی ہے اورآپ کے خطبات، آپ کے اشعار ،آپ کے فیصلوں ،آپ کے مکتوبات ،آپ کے مواعظ و نصائح اور آپ سے مروی دعاؤں کی کتابیں ہیں۔
۹۔عبدالعظیم حسنی
ان کے بارے میں نجاشی کا بیان ہے کہ :
ولہ کتاب وخطب امیرالمومنین ؑ(11)
خطبات امیر المومنین ؑسے متعلق ان کی بھی ایک کتاب ہے۔
۱۰۔ابراہیم ثقفی(م۲۸۳ھ)
نجاشی کا بیان ہے :
لہ تصنیفات کثیرۃ انتھی الینا منھا کتاب رسائل امیر المؤمنین واخبارہ … کتاب الخطب السائرۃ۔(12)
ان کی بہت سی کتابیں ہم تک پہنچی ہیں جن میں امیر المومنین ؑ کے مکتوبات ،آپ کی روایات اور آپ کے خطبات سے متعلق ہیں۔
۱۱۔محمد ابن خالد برقی
ان کے بارے میں نجاشی کا بیان ہے :
لہ کتب، منھا کتاب الخطب (13)
ان کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں خطبات کی کتاب بھی ہے۔
۱۲۔ محمد ابن احمد کوفی صابونی
ان کے بارے میں بھی نجاشی نے کہا ہے کہ:
لہ کتب، منھا کتاب الخطب (14)
ان کی بہت سی کتابیں ہیں جن میں خطبات کی کتاب بھی ہے۔
۱۳۔محمد ابن عیسیٰ اشعری
ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ
دخل علی الرضا علیہ السلام و سمع منہ روی عن ابي جعفر الثانی لہ کتاب الخطب (15)
امام علی رضا ؑکے پاس حاضر ہو ئے اور آپ کے محضر مبارک سے کسب فیض کیا ،ابو جعفر ثانی امام محمد تقی ؑسے روایات نقل کی ہیں۔ان کی خطبات پر مشتمل ایک کتاب ہے۔
۱۴۔جاحظ(م۲۵۵ھ)
امیر المومنین ؑکے سو کلمات قصار(چھوٹے فقرات) کو جمع کیاہے ۔جن کا عنوان مطلوب کل طالب من کلام امیر المومنین علی ؑابن ابی طالب ؑہے۔
خود جاحظ کا کہنا ہے کہ کل کلمۃ منہ تفیء بالف من محاسن کلام العرب (16) کہ ان میں سے ہر فقرہ عرب کے کلام کی ہزار خوبیوں پر بھاری ہے۔
یہ سو کلمات ابن میثم،رشید الدین وطواط اور عبدالوہاب کی شرح کے ساتھ طبع ہو چکے ہیں۔اسی طرح علامہ آقا بزرگ تہرانی نے اپنی کتاب’’ الذریعۃ‘‘ میںاصول کی ایک قابل توجہ تعداد ذکر کی ہے جس میں امیر المومنین ؑحضرت علی ؑکے خطبات تھے ۔یہ چند نمونے تھے ان افراد کے جنہوں نے امیر المومنین ؑحضرت علی ؑکے خطبات،مکتوبات کو جمع کیا ہے لہٰذا یہ واضح ہو گیا کہ امیر المومنین ؑکے خطبات،مکتوبات اور کلمات قصار کو لکھنے کا سلسلہ ابتدائی دور سے ہی تھا اور بہت سے لوگ اس سلسلے میں زحمتیں اٹھا چکے تھے۔سید رضیؒ کے بعد بھی یہ سلسلہ چلتا رہا اور لوگ امیر المومنین ؑکے کلام کو جمع کرنے کی طرف متوجہ رہے:
۱۔عبد الواحد ابن محمد تمیمی آمدی(م۵۱۰)نے اپنی کتاب غرر الحکم میں مولائے کائنات حضرت علی ؑابن ابی طالب کے گیارہ ہزار پچاس(کلمات قصار)کو اکٹھا کیا ہے۔
۲۔ابوعبد اللہ قضاعی۔(م۴۵۴ھ)نے کتاب دستورمعالم الحکم وماثور مکارم الشیممیں آپ کے کلمات کو نو ابواب میں ذکر کیا ہے۔(17)
۳۔طبرسی (م۵۴۸ھ)نے نثر اللئا نامی کتاب لکھی جس میں امیر المومنین ؑکے کلمات کو الف با کی ترتیب سے تحریر کیا ہے۔(18)
۴۔ابن ابی الحدید نے اپنی کتاب شرح نہج البلاغہ میں امیر المومنین ؑکے ایک ہزار کلمات کو جمع کیا ہے۔(19)
سید رضیؒ نے ان گذشتہ منابع اور مدارک کا مطالعہ کرتے ہوئے جن میں سے بعض کا تذکرہ کیا ہے اور جو بغداد پر طغرل بیگ کے حملے اور کتاب خانوں کو جلا دئے جانے کے وقت موجود تھے،اپنے خاص علمی،ادبی ذوق اور وسیع معلومات کے ساتھ ان میں بعض کا انتخاب کیا ہے ۔وہ نہج البلاغہ کے مقدمے میں فرماتے ہیں:
ان تمام باتوں کے باوجود ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ امام ؑکے تمام کلام کو جمع کر لیا ہے۔ہاں مجھے جو بھی جہاں کہیں بھی ملا اسے جمع کر لیا ہے اور کچھ بھی ضائع نہیں ہونے دیا البتہ بعید نہیں ہے کہ جو کچھ مجھے دستیاب ہوا اس سے کہیں زیادہ وہ کلام ہو جس تک میری رسائی نہیں ہو سکی اور جو کچھ میری جستجو و تلاش کے کشکول میں آیا وہ اس سے بہت کم ہے جو اس میں نہ آسکا۔(20)
..........................................................................................
حولے
1-مرتضیٰ مطہری ،سیری در نہج البلاغہ،ص ۷۔
2۔ شرح ابن ابی الحدید،ج۱،ص ۸۔
3- علی ابن الحسین مسعودی،مروج الذھب،ج۲،ص ۱۹۔
4- الفہرست،ص ۷۲،ش۲۹۱؛رجال النجاشی ،ص ۲۳۶۔
5۔ الفہرست،ص ۳۷۔
6۔ حوالہ سابق ،ص ۱۱،ش۳۲۔
7 رجال النجاشی ،ص ۱۴۰۔
8۔ حوالہ سابق ،ص ۳۰۶۔
9- الفہرست،ص ۱۰۸۔
10- الفہرست ،ص ۶ ،ش ۸؛رجال النجاشی ،ص ۱۴۔
11- روضات الجنات ،ج۵،ص۱۹۹۔
12۔ رجال النجاشی ،ص ۱۶۷،۱۶۸۔
13۔ علامہ حلی ،رجال العلامۃ الحلی ،ص ۱۳۰۔
14۔ رجال النجاشی ،ص ۱۳،۱۴۔
15۔ حوالہ سابق ،ص ۲۳۶۔
16 -حوالہ سابق ،ص ۲۶۵۔
17۔ حوالہ سابق ،ص ۲۳۹۔
18۔ الذریعۃ الیٰ تصانیف الشیعۃ،ج۷،ص ۱۸۷؛ج۱۴،ص ۱۱۱،۱۱۲۔
19- یہ کتاب مکتبۂ مفید کے ذریعہ قم میں شائع ہوئی جسے مصر کی کتاب سے آفسیٹ کیا گیا ہے۔
20- الذریعۃ الیٰ تصانیف الشیعہ ج۲۴ص٥٣
انتخاب وترجمہ: سیدحمیدالحسن زیدی، الاسوه فاؤنڈیشن سیتاپور
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں